عرب کی اونٹنی اور اس کی خصلت سے سبق آموز واقعہ ؛(Moral urdu stories)
عرب کے ایک
قبیلے کی ایک خوبصورت لڑکی ایک نوجوان کے عشق میں مبتلا ھو گئی ۔
عشق کا جنون
سر چڑھ کے بولنے لگا
رازو نیازاور
عھدو وفا کے بعد آخر فیصلہ بھاگ کے شادی کرنے کا ہوا
سفری انتظامات
میں لڑکی نے اپنی اونٹنی سفر کے لئے پیش کرنے کا بتایا اپنے عاشق کو جو کے بہت چست
اور
سفر کرنے میں
بہت تیز تھی ۔اور طے پایا کے رات کو ندی کے کنارے مقرہ وقت پر پہنچ کے سفر کا آغاز
کریں
گے اور بھاگ
جائیں گے دوسرے شہر کی طرف، لڑکے نے بھی رضا مندی ظاہر کی اور رات کو ندی کے کنارے
پہنچنے کا عہد
کیا اور مقرہ وقت پر ندی کے کنارے دونوں پہنچے
ندی کو کراس
کرنے کا وقت تھا اور لڑکی نے لڑکے کو کہا کے میں اونٹنی پے سوار ہوتی ہوں اور تم
اونٹنی کو
ہانکتے ہوئے
پیچھے پیچھے آؤ گے اور ندی کو کراس کرنے کے بعد تم بھی اس پر سوار ہو جانا اور
روانہ ہو جایں گے
منزل کی طرف
۔لڑکا ھیران ہوا اور پوچھا کے ہم دونوں بھی تو اس پر سوار ہو کر ندی
کراس کر سکتے
ہیں تو ایسا کیوں جبکے پانی کا لیول تو ندی میں بہت تھوڑا ہے تو
لڑکی نے بتایا
کے اس کا والد بڑا اونٹ بھی ہمارا پالتو ہے اور اس کی عادت ہے کے جب بھی ندی کراس
کرتا ہے تو
بیچ ندی میں
جا کے بیٹھ جاتا ہے اور پانی میں مستیاں کرنے لگتا ہے اور ڈھیٹ ھے اٹھنے کا نام
نہیں لیتا اور اس
کی بھی عادت
اپنے پاب جیسی ہے اور یہ بھی اس طرح کرتی ہے اور بیچ ندی جا کے بیٹھ جاتی اور ویسے
ہی
تنگ کرنی اور
اسی لئے تم سے کہ رہی ہوں کے ندی کراس کرنے کے بعد آپ بیٹھ جانا اور جانب منزل
رانہ ہوجائیں گیں
لڑکے نے جیسے
یہ بات سنی تو بڑے غور سے لڑکی کو دیکھنے لگا اور لمبی سانس لی اور بھت ھیران کن
جواب
لڑکی کو دیا
کے تم گھر واپس گھر چلی جاؤ لڑکی بہت ھیران ہوئی اور وجہ پوچھی کے اتنے پختے ارادے
کے بعد بھی تم اس طرح
کر رہے ہو
کیوں تو لڑکے نے کہا کے بس اللہ کو منظور ہوگا تو نکاح ہو جائے گا اور جائیز طریقے
سے ہماری
شادی ہو جائے
گی اور نا بھی ہوا تا جو اللہ کی مرضی
اور لڑکے کہا
کے اگر ایک اونٹ کی خصلت اپنی بیٹی میں ظاہر ہو سکتی ہیں تو میری بیٹی میں بھی یہ
عادت منتقل ہو سکتی ہے
کے وہ اپنی
ماں کی طرح گھر سے بھاگ جائے اور ہمیں ذلتیں اٹھانی پڑیں تو میں ایسا نہیں کر سکتا
۔
دوستو دینا
مکافات عمل ہے جیسا کرو گے وہسا بھرو گے اس بات کو سوچیں تو والدین سے سلوک کے
والے سے بھی یہی ہے اگر اچھا کرو گے تو اچھا ہوگا ۔
ایک پالتو کتے کی نا فرمانی اور چند اصلاحی الفاظ آپ کی نظر کرنا
چاہتے ہیں ۔جن کا تعلق اشفاق احمد صاھب کی بک زاویہ سے لئے گئے
ہیں جو کہ بہت پر اثر ہیں ۔
ایک ویٹرنری پروفیسر نے
اپنےجونیئر سے کہا، کے آؤ میں تمہیں
ایک کہانی سناتا ہوں ،اور وہ انہیں سنانے لگے، کہ ایک میڈم کے ملازم
میرے پاس آئے اور کہنے لگے، کہ جناب مجھے میڈم نے بھیجا ہے، اور
ان کے کتے کو کچھ مسئلہ ہے۔ اور وہ انکا آپ سے علاج کروانا چہتی ہیں ۔
لہذا مہربانی کر کے آپ وقت دیں اور ہم کتا آپ کے پاس لے آتے ہیں ۔
پرفیسر صاھب نے وقت دے دیا اور میڈیم مقررہ وقت میں کتے کو لے
کہ پروفیسر صاحب کے پاس لے آئیں ،اور کتے کے بارے میں عجیب و
غریب کہانی سنانے لگی، کے مجھے اس سے بہت انس ہے ۔مگر اب
یہ بہت مجھ سے دور بھاگتا ہے ۔پہلے یہ ایسا نہیں تھا ۔اب یہ بلانے پے
بھی نہیں
آتا، اور تمام اس کی خوبیاں ختم ہوگئیں ہیں ،لہذا آپ اسکا علاج کریں ۔
پروفیسر صاھب سمجھ رہے تھے کہ کوئی اندرونی بیماری ہوگی ،مگر
اس کی بیماری تو نفسیاتی نکلی ،پروفیسر صاحب نے اس میڈم سے کہا کے
آپ اس پالتو کتے کو میرے پاس 24 گھنٹے کے لئے چھوڑ جائیں ۔میں اسکا
علاج کروں گا ۔اور میڈم کتے کو چھوڑ کے چلی گئی ۔اور اب پرفیسر
صاھب نے کچھ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد اپنے ملازم فیضو کو
بلایا، اور کہا کے کتےکو بھینسوں کے باڑے میں باندھ دو ۔
فیضو نے ایسا ہی کیا ،اور پانی اور کھانے میں تھوڑی تنگی دینے کا بھی
کہا اور ساتھ میں تھوڑی چھترول کا بھی کہ دیا ۔یہ ٹریٹمنٹ چلتا رہا ،
کتے کے لئے 24 گھنٹے نکالنا مشکل ہوگیا ۔24 گھنٹے گزرنے کے بعد
میڈم آئی اور کتے کے متعلق پوچھا تو پروفیسر صاھب نے کہا
کے اسکا علاج ہو چکا ،اور پروفیسر صاھب نے کتے کو لانے کا حکم
دیا فیضو لے کہ پہنچا ،جیسے ہی کتے کو مالکن کے پاس لے جایا گیا ۔
کتا دوڑا دوڑا مالکن کے پاس پہنچا اسے چومنے لگا ،انگڑائیاں لینے لگا
۔
اور پاؤں میں گر گیا ۔مالکن کو تسلی ہو گئی کہ علاج کامیاب ہوگیا ۔
اب کہنے کی بات یہ ہے کہ جب مالک یعنی اللہ سے ہم منہ موڑتے
ہیں تو ہمیں دنیا سے ایسے ہی ہمیں جوتے پڑتے ہیں ،اور ایسا ہی ہمیں
ماحول
ملتا ہے ،اور اللہ کی رحمت ہم سے دور ہو جاتی ہے ۔چاہے ہم ایئر
کنڈیشنڈ
روم اور وی آئی پی ماھول میں ہی کیوں نہ رہ رھے ہوں ،ناشکری
اور اللہ سے دوری ایسے ہی رزلٹ لاتی ہے ۔ لہذا دنیاوہ مصرفیات کے ساتھ
ساتھ
اللہ کی نافرمانی سے بھی بچنے کا سوچنا چاہیے ۔اللہ ہم سب کو خیر کے
راستے پے
چلنے کی توفیق دے ،طالب دعا ۔
Moral urdu stories:
ایک بادشاہ محل کی چھت پر ٹہلنے چلا گیا، ٹہلتے ہوئے اسے دوسری
طرف چھت پر ایک عورت پے نظر پڑی ،جو کہ بہت حسین و جمیل تھی ۔
اور چھت پر کپڑے سکھا رہی تھی ۔بادشاہ نے اپنی باندی کو بلا کے پوچھا
کہ یہ عورت کون ہے تو جواب ملا کے حضور یہ آپ کے فلاں ملازم فیروز
کی بیوی ہے۔
بادشاہ پے اس عورت کے حسن کا جادوچڑھ چکا تھا ۔اور بادشاہ نے فیروز کو بلایا ۔
اور حکم دیا گیا کے فیروز آپ
کومیرایہ خط لےکہ فلاں بادشاہ کے دربار میں
پہنچانا ہے ۔اور اسکام کے لئے ابھی آپ کو نکلنا ہوگا ۔
فیروز نے بادشاہ کا خط لیا اور گھر جا کے ضروری سامانِ سفر باندھنے کے
بعد روانہ ہوگیا ۔فیروز بلکل لا علم تھا کہ اس کے ساتھ کیا چال چلی گئی ہے ۔
اب جیسے ہی فیروز وہاں سے کچھ دور گیا ہوگا ۔بادشاہ اس کے گھر کے دروزہ پے
پہنچے۔
اور دروازہ کھٹکھٹایا ۔اندر سے پوچھنے پے بادشاہ نے اپنا تعارف کروایا کے
آپ کے میاں کا مالک ہوں باسشاہ دروازہ کھولا گیا ۔اور بادشاہ اندر جا کے بیٹھ
گئے۔
اور فیروز کی بیوی پوچھتی ہے کہ بادشاہ سلامت آپ یہاں ہمارے غریب خانے پے ۔
تو بادشاہ نے کہا کے میں یہاں تمہارا مہمان بن کے آیا ہوں ۔فیروز کی بیوی بہت
ذہین تھی ۔
فورا سمجھ گئی۔
کہ ان کی نیت خیر کی نہی ہے ۔ اور اس نے بادشاہ سے کہا کے آپ کو اس طرح
فیروز کی غیر موجودگی میں نہیں آنا چاہیئے تھا ۔تو باسشاہ غصے میں آگیا اور
کہنے لگا کے تمہیں علم نہیں میں بادشاہ ہوں اور تمہارا میاں میرا غلام ہے ۔
اب فیروز کی بیوی نے بادشاہ کو جو جواب دیا وہ لاجواب تھا اور اس نے اپنی
عزت کی حفاظت اس طرح کی کہ۔
بادشاہ تم اس کٹورے میں پانی پینے آگئے ہو جس میں تمہارے کتے نے پانی پیا ہے
اور بادشاہ سلامت شیر جتنا بھی بھوکا ہو گھاس نہیں کھاتا بھوکا مر جاتا ہے ۔
بادشاہ کو بڑی شرمندگی ہوئی اور وہ
سمجھ گیا اور فیروز کے گھر سے نکل گیا ۔مگر جلدی میں
وہ اپنی نعل یعنی جوتی وہاں بھول گیا ۔
اب فیروز کو راستے میں یاد آیا کے وہ خط تو وہیں سرہانے کے نیچے رکھا تھا ،وہ
تو
وہیں رہ گیا تو اس نے اپنے گھوڑے کو واپس موڑا اور گھر پہنچا ،تکیئے کے نیچے
سے خط اٹھاتے وقت فیروز کی نظر نیچے پڑی تو اسے باسشاہ کی جوتی نظر آگئی ۔
بہت پریشان ہوا مگر خط پہنچانے کی غرض سے دوبارہ گھر سے نکل گیا لیکن پریشانی
کے
عالم میں تھا ۔خط پہنچانے کے بعد فیروز بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا ،اور
بادشاہ نے اسے
100دینار تحفے میں دے دیئے۔
اب فیروز بازار گیا عورتوں کے ضرورت کے کچھ ضروری چیزیں مثلا کپڑے
جوتے اور دیگر لے کے گھر پہنچا اور بیوی سے کہا کے چلو میکے چلتے ہیں ۔
اور وہ بیوی کے گھر میکے ہیچ گئے اور بیوی سے کہا کے تم کچھ دن یہاں رکو میں
آ کر تمہیں لے جاؤں گا ۔
ایک ماہ گزرنے کے بعد فیروز کے سالے اور تمام گھر والے پریشان ہوئے کہ فیروز
اپنی بیوی کو واپس کیوں نہیں لینے آیا تو وہ پینچ گئے فیروز کے پاس اور وجہ
پوچھی
تو فیروز نے کوئی جواب نہیں دیا او ر کہا کہ میں نے اسکا ہر حق ادا کر دیا ۔
اور اب سالے اسے دھماکانے لگے ہم تمہیں قاضی صاحب کے پاس پیش کریں گیں ۔
تو فیروز کا جواب تھا شوق سے ۔
اب فیروز کے سالے قاضی صاحب
کے پاس پہنچے جو کہ بادشاہ کے دربار میں
موجود تھے تو انہوں نے اپنا
مدعا قاضی صاھب سنانے کے لئے فیروز کی طلبی
چاہی تو فیروز بھی دربار
میں آگیا ،تو انہوں نے بتایا کہ قاضی صاحب ہم نے اپنا ہرا بھرا باغ
پھلوں سے لدا اور ساتھ
میٹھے پانی کا کنواں فیروز کے حوالے کیا تھا مگر
فیروز نے اسے اجاڑ دیا اور
ہمارے ہوالے کر دیا ۔
تو قاضی صاھب نے فیروز کو
مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کے فیروز تم نے ایسا
کیوںکیا تو فیروز بولا کہ
میں نے ان کا باغ ویسی حالت میں ان کو واپس کیا ہے ۔
اس میں کچھ خراب نہیں کیا ۔
توقاضی صاحب نے فیروز سے
پوچھا کہ پھر تم نے اس باغ کو واپس کیوں
کیا تو فیروز بولا کے جناب
ایک دن میں اس باغ میں پینچا تو میں نے ایک
شیر کے پنجوں کے نشان اس
باغ میں دیکھے تو میں ڈر گیا کہ کہں وہ شیر مجھے کھا نہ
جائے تو اس لئے میں نے باغ
واپس کر دیا ۔
بادشاہ یہ سب کاروائی سن
رھے تھے اور بولے کہ فیروز شیر تمھارے گھر آیا
ضرور تھا مگر بے مقصد و نا
مراد واپس گیا کیوں کے تمھارے باغ کی دیواریں اتنی
مضبوط تھیں کہ انہیں کون
نقصان شیر کی جانب سے نہیں ہوا ۔
اس پر فیروز مطمئن ہوا اور
وہ جا کے بیوی کو گھر لے آیا ۔
اور یہ معاملہ چھپے الفاظ
میں اس قدر احسن طریقے سے نپٹ گیا کہ نا تو کوئی درباری
سمجھ سکا نہ ہی الزامات کی
باچھاڑ ہوئی ۔
اللہ ہہیں بھی اپنی فیملی
میٹز میں معاملہ فہمی عطا کرے ۔
0 Comments