قتل کا ارادہ (معاذ اللہ ) مگر نبی پاک
کو وحی مل چکی تھی
اور دشمن کا قبول اسلام
(Islami waqiat sy aik shandar
waqia)
)جی تو دوستو (اسلامی واقعات
سے ایک ایمان کو تازہ کر دینے ولا واقعہ کہیں پڑھا اور میرے علم میں یہ پہلی دفعہ آیا، تو ایمان تازہ ہوگیا
دل میں ایک مسرت کے جزبات ابھرے اور سوچا آپ سے شیئر کیا جائے؛
واقعہ کی تفصیل :
بھائیوں کی بات کے جواب میں حضرت ولید بن ولید
بولے :
میں نے سوچا اگر میں مدینہ منورہ میں مسلمان
ہوگیا تو لوگ کہیں گے میں قید سے گھبرا کر مسلمان ہوگیا ہوں۔
انہوں نے مدینہ منورہ ہجرت کا ارادہ کیا تو ان کے بھائیوں نے انہیں قید میں ڈال دیا حضور پاک کو خبر
ملی تو آپ قنوت نازلہ میں رہائی کی دعا فرمانے لگے ۔آخر ایک دن ولید بن ولید مکہ سے نکل کر بھاگنے
میں کامیاب ہوگئے اور نبی پاک کی خدمت میں مدینہ
پہنچ گئے ۔
ایسے یہ ایک قیدی حضرت وہب بن عمیر رضی اللہ عنہُ(جو بعد میں اسلام قبول کرتے ہیں) نے بھی غزوہ
بدر میں مسلمانوں سے جنگ کی تھی اور کافروں کی شکست کے بعد قیدی بنا لئے گئے تھے ۔
(Tareekh islam sy aik aiman afroz
waqia )
بیشک تاریخ اسلام
سے یہ ایک شاندار واقعہ ہے وہب بن عمیر کے والد کا نام عمیر تھا .ان کے ایک دوست تھے صفوان
رضی اللہ عنہُ ان دونوں دوستوں کا تعلق مکہ کے قریش سے تھا ،دونوں نے اس وقت تک اسلام قبول نہیں
کیا تھا اور مسلمانوں کے بد ترین اور بڑے سخت دشمن تھے۔ ایک دن یہ دونوں حجرا اسود کے پاس بیٹھے
ہوئے تھے۔ دونوں بد ر میں قریش کی شکست کے بارے میں باتیں کرنے میں مصروف ہو گئے ،قتل ہو
جانے والے سرداروں کے بارے میں باتیں کرنے لگے، اور صفوان نے کہا اللہ کی قسم ان سرداروں کے قتل
ہو جانےکے بعد تو زندگی کی رونقیں ختم ہو گئی ہیں۔ یہ سننے کے بعد عمیر نے کہا کے تم سچ کہتے ہو
خدا کی قسم اگر مجھے قرض ادا کرنا ہے اور بیوی بچوں کا خیال ہے ورنہ میں جا کے محمد کو قتل کردیتا
(معاذاللہ) ،اور وجہ بھی میرے پاس موجود ہے ۔کے میرا بیٹا ان کے پاس قید ہے جو بدر کی لڑائی میں شامل تھا ۔
یہ سننا تھا کے صفوان نے کہا کے تمھارا قرض اور تمھارا خاندان میری ذمہ داری ان کی خرچ اورکفالت
میں خود ادا کروں گا تم جاؤ جا کے
اپنا کام کرو ۔
صفوان نے اسے راضی کر لیا تھا عمیر نے تلوار نکالی تیز کی اور زہر آلود کرنے کے بعد روانہ ہوگیا اور
مسجد میں پہنچا، جہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہُ بدر کی جنگ کے ھوالے سے باتیں کر رہے تھے جیسے
ہی حضرت عمررضی اللہ نے دیکھا عمیر کو تو آپ اندر ہجرےمیں حضور پاک کے پاس تشریف لے گئے
اور آپ کو
بتایا کے عمیر تلوار لے کے مسجد میں داخل ہوا ہے ۔
تو آپ نے حضرت عمررضی اللہ سے فرمایا کے جاؤ اور اسے یہاں لے آؤ حضرت عمر رضی اللہ عنہُ نے
اسے پکڑا اور ساتھیوں سے کہا کے اس بندے کی نیت اچھی نہی ذرا
ساتھ آجاؤ تو وہ ساتھ آگئے ۔
آپ نے جب دیکھا تو حضرت عمر سے کہا کے اسے چھوڑ
دو تو حضرت عمر نے اسے چھوڑ دیا
تو آپ نے اس سے پوچھا کے عمیر کیسے آئے ہو تو عمیر کہنے لگا کے اپنے بیٹے کی رہائی کے لئے ۔تو
آپ نے پھر اسرار کیا کے عمیر صحیح بتا ؤ کیسے آئے ہو ,تو عمیر نے پھر وہی جواب دیا تو آ پ نے
پوچھا پھر تلوار کیوں ساتھ
لائے ہو ۔
اس کے بعد آپ نے عمیر سے کہا کےمیں تمہیں بتاتا
ہوں کے تم کیوں آئے ہو ۔تم اور صفوان کچھ
دن پہلے ہجرہ اسود کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور اپنے قتل ہو جانے والے سرداروں کا ذکر کر رہے تھے
۔اور وہاں صفوان نے تمھارے خاندان کی کفالت کا ذمہ لیا تھا اور تم پھر مجھے نقصان پہنچھانے کے لئے
یہاں آگے
یہ سننا تھا کے عمیر کے پاں تلے سے زمیں نکل گئی کے اس بات کا صرف
مجھے اور صفوان کو علم تھا ۔میں نے یہ بات گھر
میں بھی اور کسی سے بھی ڈسکس نہیں کی تھی
تو یہ بات حضور کیسے جانتے ہیں وہ سمجہ گئے کے ان کے پاس اللہ کی طرف سے وحی (پیغام) آتی ہے
اور اسے یقین ہو گیا کے یہ واقعی
اللہ کے سچے نبی ہیں اور وہاں اس نے اسلام قبول کر لیا ۔
حضور پاک نے اسلامی تعلیم اور ان کی تربییت کے
لئے صحابہ سے کہا اور انکا قیدی کی رہائی کا حکم دیا ۔
(Tareekh islam sy aik aiman afroz waqia )
0 Comments