ایمان کا لطف اٹھانے والے(Hadees sharief)
وعن العباس بن عبدالمطلب قال قال رسول اللہﷺ ذاق
طعم الایمان من رضی بللھ ربا وبالاسلام دینا وبمحمد رسولاً ررواہ مسلم
حضرت عباس بن عبدالمطلب سے رویت ہے فرمایا رسول
اللہﷺ نے کہ
جس نے خدا کو اپنا رب ،اسلام کو اپنا دین اور محمد کو اپنا رسول مان لیا ،اس نے
اہمان کا مزہ چکھ لیا (مسلم)مشکوۃمترجم جلد اول7/7
مسلمان کون ہے ؟
حضرت انس رضی اللہ سے روایت ہے رسولاللہﷺﷺﷺﷺنے فرمایا کہ جو شخص ہماری جیسی نماز پڑھے ہمارے قبلہ کی
طرف رخ کرے اور ہمارے ذبح کئے ہوئے (جانور کو) کھائے وہ مسلمان ہے اور وہ خدا اور
خدا کے رسول کے عہدوامان میں ہے
11/11
انظرواالی من اسفل منکم اسفلَ منکم ولا تنظروا
الی من ھوفوقکم (Hadees
sharief in urdu)
انہیں دیکھا کرو جو تم سے کم تر ہیں اور انہیں
نہ دیکھو جو تم سے بالا تر ہیں
صحیح مسلم 213/14
حدیث 5264
اللہ سے ڈرتے رہو
اِتِّق اللہَ حیثُما کنتَ
"جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرتے رہو"
سنن ترمذی 262/7
حدیث 1910
مظلوم کی بد دعا
اتقِ دَعوۃ المظلومِ فانھا لیس بینھا وبین اللہ
حجاب
مظلوم کی بد دعا سے بچو کیوں کہ اس کی آہ کا
اللہ کی بارگاہ سے براہ راست تعلق ہے ۔اس کے بیچ کوئی چیز حائل نہیں ۔
صبر سے زیادہ بہتر اور اس سے بڑھ کر کبھی کسی کو
کوئی نعمت نہیں ملی
ما اعطی احد عطا ء ھو خیر واسع من الصبر
صحیح بخاری 155/6
حدیث 1585
وہ کمائی سب سے بہتر ہے جو انسان محنت کر کے
کماتا ہے ؛
(stories in urdu)
and (Hadees sharief)
افضل الکسب عمل الرجل بیدہ
اس حدیث پاک میں ہمیں مھنت کر کے اپنی معاش کرنے
کا کہا گیا ہے اور اس ھوالے سے ایک واقعہ
آپ دوستوں کی نظر ہے
ایک آدمی نے حاتم طائی سے پوچھا کہ آپ نے اپنے
آپ سے زیادہ کبھی کسی کو بلند ہمت اور بہادر دیکھا ھے۔ حاتم نے جواب دیا ہاں دیکھا
ہے ۔ امر واقعہ ہے کہ ایک دن میں نے چالیس اونٹ ذبح کئے تھے اور تمام اہل علاقہ کی
دعوت کی تھی ۔عین کھانے کے وقت میں کسی کام سے جنگل کی طرف نکل گیا ۔وہاں ایک لکڑ
ھارے کو دیکھا کہ مھنت و مشقت کے ساتھ لکڑیاں کاٹنے میں مصروف تھا میں نے اس سے
کہا کے اے لکڑ ھارے تو اس وقت یہاں دھوپ میں کیوں پریشان ہو رہا ہے ؟ جا حاتم طائی
کے یہاں دعوت عام ھے ۔مزے لے لے کر کھا پی ۔یہ سن کر اس نے جواب میں کہا ،جو لوگ
اپنے ہاتھ سے کمانے اور محنت کر کے اپنا پیٹ بھرنا جانتے ہیں وہ حاتم کا احسان
لینے کی ضرورت خیال نہیں کرتے ۔
علم کی طاقت کا واقعہ اور حدیث شریف
اطلبواالعلم ولو بالصین۔۔۔۔
علم حاصل کرو چاہے اس کے لئے تمہیں ملک چین ہی
کیوں نا جانا پڑے
کولمبس ایک جہاز ران کا بیٹا تھا ایک دن اسے
خیال آیا کے کیوں نا دنیا کا دوسرا کنارا دیکھا جائے ایسے لوگوں کو ستاروں کے علم
کا بہتر پتہ ہوتا ہے کیوں کے ان کے سفر کا اس علم سے گہرا تعلق ہوتا ہے تو کولمبس
شاہی دربار کے خرچ پے اپنے سفر پر روانہ ہوا اور امریکہ جا پہنچھا جب وہ امریکہ کی
سر زمیں پر قدم رکھ رہا تھا تو وہاں قبائیلی لوگوں نے اسے قبول نا کیا اور بات
لڑائی تک جا پہنچی تو ایسے میں کولمبس کو خیال آیا کے کل سورج گرہن ہے اور اس بات
کا فائدہ اٹھایا جائے تو اس نے قبائیلی لوگوں کو سورج سے نقصان کا ڈرایا اگلے دن
کی مہلت دیتے ہوئے لوگ پریشان ہوئے اور انتظار کرنے لگے اگلے دن سورج گرہن ہوا تو
لوگ واقعی گھبرا گئے اور انہوں نے کولمبس کو جادوئی مان لیا اور ان سے صلح کر لی ۔
تو کہنے کا مطلب ہے یہ علم کی طاقت صرف سورج
ستاروں کا علم ہونے کی وجہ سے اس نے اپنی جگہ بنا لی ۔اسی لئے علم حاصل کرنے پر
زور دیا گیا ہے او ہمارا دین اسلام میں بھی ہے کے علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد
عورت پر فرض ہے ۔اور آج کل ایسے دین کو برا بھلا کھا جاتا ہے عورت کو بھی پردے میں
رہ کر علم حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے ہمارا دین مگر کچھ تنگ نظر ممالک اس کو یعنی
پردے کو غلط رنگ دیتے ہیں ۔
حسن سلوک اور حدیث پاک اور ایک واقعہ ایمان کو
تازہ کر دینے والا؛
(Moral stories
in urdu )
ما من شی ءِ اثقل فی المیزان من حسن الخلقِ
میزان عمل پر اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی چیز
نہ ہوگی
سنن ابو داؤد ؛ 12/421
حدیث 4166
دوستو بھائیو آپ نے بہت دفعہ یہ واقعہ سنا ہوگا
پڑھا ہوگا مگر صرف ایمان کی تازگی اور نبی پاک کی حرمت کی خاطر ؛
حضور اکرم کی سربراہی میں جب مسلمانوں نے مکہ
فتح کیا تو اس وقت آپ نے دیکھا کہ مکہ فتح کر لیا تو اس وقت آپ نے دیکھا کہ مکہ کی
ایک ضعیف عورت سر پر ایک گھڑی لئے بھاگی جارہی ہے
سرکار دو عالم کو اس بوڑھی عورت پر ترس آیا کہ
بڑھاپے کے باوجود اس نے سر پر گھٹری کا بوجھ اٹھا رکھا ہے ۔چنانچہ آپ اس بڑھیا کے
قریب آئے اور اس سے وجہ پوچھی کہ وہ اتنا بوجھ اٹھائے کہاں جا رہی ہے
اس بڑھیا نے کہا اے بیٹے میں محمدﷺ نامی شخص کے خوف سے مکہ چھو ڑ کر جا رہی ہوں کہ کہیں وہ
مجھ سے میرا مزہب نہ چھڑوادے ۔آپ اس بڑھیا کی بات سن کر مسکرائے اور فرمایا : مائی
اتنی بھاری گھٹری تو کیسے اٹھائے گی ۔لا یہ بوجھ مجھے دے دے میں تجھے تیری منزل تک
پہنچھا دیتا ہوں
یہ کہ کر آپ نے وہ گھٹری اپنے سر پر اٹھا لی اور
بڑھیا کے ساتھ چل پڑے تمام راستے وہ بڑھیا محمد کو برا بھلا کہتی رہی اور آپ نہایت
صبر وتحمل سے سنتے رہے ۔پھر جب بوڑھیا اپنی منزل پر پہنچی تو آپ نے برھیا کی گھڑی اسے
واپس کر کے اس سے اجازت چاہی۔تو بڑھیا نے آپ کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کے مکہ میں
جادوگر محمد سے بچ کے رہنا ۔
تو آپ نے بڑھیا سے کہا کے مائی جس محمد سے ڈر کر
تم یہاں پہنچی ہو وہ میں ہی ہوں تو بوڑھیا ھیران اور پریشان ہوئی کے میں نے سنا
کیا تھا آپ کے بارے میں اور آپ ہیں کیا تو اس نے آپ سے معزرت کے ساتھ آپ کے ھسن
سلوک اور اخلاق کی تعریف کی ۔
اور کہنے لگی کے آپ دشمنوں سے بھی اتنا اچھا
سلوک کرتے ہیں ؟
تو دستو آج جس محمد کو امریکہ اور دیگر ممالک نے
تنقید اور ان کی عظمت کو تار تار کیا ہوا ہے یہ ہو محمد ہیں جس کے یہ اخلاق ہیں
اور جن کی ذات پے لاکھوں کتانیں سیرت کے حوالے سے لکھی جاچکی ہیں ان ممالک کی تنگ
نظری سے اس کی شان میں کبھی فرق نہیں آسکتا بل کے مسلمانوں اور غیر مسلمز جب ان کی
سیرت کو پڑھتے ہیں تو ان کی شان انہیں اچھے سے سمجھ آجاتی ہے اور سمجہ جاتےہیں لوگ
کے یہ صرف تنگ نظری ہے اور کچھ نہیں ۔
دین کی بات پھیلانا صدقہ جاریہ ہے شیئر پلیز
0 Comments