نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے
جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کے لئے
یہ عقل و دل ہیں شرر شعلہ محبت کے
وہ خارو خس کے لئے ہے یہ نیستاں کے لئے
مقام پرورش آہ و نالہ ہے یہ چمن
نہ سیر گل کے لئے ہے نا آشیاں کے لئے
رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک
تیرا سفینہ کہ ہے بحر بیکراں کے لئے
نشان راہ ج دکھاتے تھےجو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لئے
نگہ بلند سخن دل نواز جاں پر سوز
یہی ھے رخت سفر میر کارواں کے لئے
ذرا سی بات تھی اندیشہ عجم نے اسے
بڑھا دیا ہے فقط زیب داستاں کے لئے
میرے گلو میں ہے اک نغمہ جبریل آشوب
For best poetry allama Iqbal click here
سمبھال کر جسے رکھاہے لا مکاں کے لئے۔
0 Comments