دنیا کی آبادی میں
تیزی سے ہونے والے اضافے نے زرعی سائنس دانوں کو کاشت کاری کے ایسے طریقوں کے بارے
میں سوچنے پر مجبور کردیا ہے جنہیں استعمال کر کے نہ صرف پیداواری صلاحیت میں
اضافہ کیا جاسکے بلکہ زرعی مقاصد کے لیےمخصوص اراضی کو کسی اور مقصد کے لیےبھی
استعمال کیا جا سکے۔اس وقت دنیا کی آبادی سات ارب نفوس سے تجاوز کرچکی ہے۔اس
آبادی کی غذائی ضروریات پوری کر نے کے لیے ہم سطح زمین کا چالیس فی صد حصہ باغات،
کھیت، کھلیان اور مویشیوں کی گلہ بانی کے لیے مخصوص کرچکے ہیں۔
اگر اجناس حاصل کرنےکے
لیےہم اسی طرح زمین استعمال کرتے رہے تو مستقبل میں انسانوں کی رہائش کے لیے جگہ
کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ اقوام متحدہ کے محکمہ اقتصادی اور سماجی
امور کے مطابق 2050تک دنیا کی آبادی 9ارب60 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔دوسری جانب
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے خوراک و زراعت کے مطابق مستقبل میں غذائی قلت سے
بچنے کے لیے ہمیں خوراک کی پیداوار بڑھا کر 70فی صد تک لے کرنی ہوگی۔ لیکن اجناس
کی پیداوار بڑھانے کے لیے زمین درکارہے اور ہم پہاڑوں کی چوٹیوں، برفانی علاقوں
اور صحراؤں کو چھوڑ کر زمین کا ممکنہ حد تک رقبہ استعمال کر چکے ہیں۔
ماہرینِ زراعت کا کہنا
ہےکہ اگر آج کے انسان نےابھی سے خود کو مستقبل کے لیے تیار نہیں کیا تو خدشہ ہے
کہ دوتین دہائیوں بعد بہت سے ممالک میں اشیائے خورنی کی شدید قلت ہوجائے گی۔وہ
کہتے ہیں کہ اب ہمارے پاس صرف جنگلات ہی باقی بچے ہیں۔ لہٰذا ہمیں کاشت کاری کے
طریقوںمیں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے۔
زرعی شعبے پر بڑھتے
ہوئے دباؤکے مرحلے پر امریکا کے ایک سرکردہ زرعی تحقیقی مرکز کی جانب سےیہ کہا
گیا ہے کہ اس کی دریافت کردہ ایک یا زائد بہتر تدابیر اپنانے سے، مکئی، گندم اور
چاول اُگانےوالے کسان غلے کی پیداوار میں نمایاں اضافہ اور زیادہ لوگوں کو خوراک
مہیا کر سکتے ہیں۔واشنگٹن میں بین الاقوامی غذائی پالیسی کے تحقیقی ادارے (آئی
ایف پی آر آئی) کی ایک رپورٹ کے مصنف، مارک روزگرانٹ کا کہنا ہے کہ 2050 ءمیں
زرعی ٹیکنالوجی یا کاشت کاری کا کوئی ایک طریقہ دنیا کے لیے خاطر خواہ مقدار میں
خوراک مہیا نہیں کر سکے گا۔
0 Comments